حمل كی ذیابطیس

(Gestational Diabetes) حمل كی ذیابیطیس

اگر كسی ایسی عورت كو حمل کے دوران ذیابیطیس ہو جائے، جسے حمل سے پہلے ذیابیطیس نہیں تهی، تو اسے حمل كی ذیابیطیس كہا جاتا ہےـ حمل كی ذیابیطیس عام طور پر ساتویں مہینے كے آس پاس ظاہر ہوتی ہےـ

یہاں یہ بات یاد ركهنے كی ہے كہ جس عورت كو حمل سے پہلے ہی ذیابیطیس كی تشخیص ہو چكی ہو، اُسكے مرض كو حمل كی ذیابیطیس نہیں كہا جائے گاـ ان دونوں صورتوں میں كُچه بنیادی فرق ہوتے ہیں

حمل كی ذیابیطیس میں خون كی شوگر اُس وقت بڑهنا شروع ہوتی ہے، جب بچے كے كم و بیش تمام اعضا پہلے ہی بن چكے ہوتے ہیںـ اسلئے ان بچوں میں پیدائشی نقائص پیدا ہونے كا كوئی اضافی خطرہ تو نہیں ہوتا(جیسا كہ پہلے سے ذیابیطیس كی مریضہ كے حاملہ ہونے كی صورت میں ہوتا ہے)، لیكن اگر احتیاط نہ برتی جائے تو بچے كو نقصان پہنچنے كا خطرہ بہرحال رہتا ہے

 حمل كی ذیابیطیس كیسے ہوتی ہے؟

 حمل كی ذیابیطیس كے بارے میں اب تك جو تحقیق سامنے آئے ہے،اسكے مطابق ہم جانتے ہیں كہ بچہ پیدائش سے پہلے  آنول كے ذریعے  ماں كے رحم سے جُڑا ہوتا ہےـ یہ آنول كُچه ایسے ہارمون پیدا كرتی ہے جو كہ ماں كے خون میں شامل ہو كر اُسكی انسولین كو بے اثر كر دیتے ہیںـ اگر ماں كا جسم اس بے اثری پر قابو پانے میں ناكام ہو جائے تو اُسكے خون میں شوگر كی مقدار بڑه جاتی ہے، جسے ہم حمل كی ذیابیطیس كہتے ہیںـ

حمل كی شوگر ہونے سے بچے كو كیا بقصان پہنچ سكتا ہے؟

ماں كے خون میں جب شوگر بڑهتی ہے، تو آنول كے ذریعے یہ بچے كے خون میں شامل ہو كر، اُسے خون كی شوگر بهی بڑها دیتی ہےـ اس فالتو شوگر كو استعمال میں لانے كیلئے بچے كا جسم زیادہ انسولین پیدا كرنے لگتا ہےـ ماں كی طرف سے آنے والی اضافی شوگر اس انسولین كے اثر سے بچے كے جسم میں چربی كی صورت میں جمع ہونے لگتی اور بچے كا سائز نارمل سے بڑا ہو جاتا ہےـ یہ بظاہر بڑا بچہ كئی طرح كی مشكلات كا شكار ہو سكتا ہے،

 ـ بڑی جسمات كی وجہ سے اس بچے كی پیدائش میں مشكل پیش آتی ہے، جس میں ماں اور بچے، دونوں كیلئے نقصان خطرہ رہتا ہے، نیز بڑے آپریش كی ضرورت بهی پیش آ سكتی ہےـ

  پیدائش كے فوراً بعد بچے كے خون میں شوگر انتہائی كم ہو سكتی ہے

  ان بچوں كے پهیپهڑے كے عمل میں كُچه خرابی ہو سكتی ہے، جس كی وجہ سے سانس كی تكلیف كا خطرہ رہتا ہے، جو كہ كبهی كبهار خطرناك صورت بهی اختیار كر سكتا ہے

 ان بچوں میں پیدائش كے فوراً بعد یرقان كا زیادہ امكان ہوتا ہے

حمل كی ذیابیطیس ہونے پر ماں كے خطرات

حمل كی ذیابیطیس ہونے پر ماں كیلئے سب سے زیادہ خیال ركهنے كی بات یہ ہے كہ كُچه عرصہ بعد اُنہیں مستقل طور پر ذیابیطیس نقسم دوم  ہو جانے كا خطرہ %66 فیصد كے قریب ہےـ ان خواتین كو اپنا وزن قابو میں ركهنا چاہئے، اور باقاعدگی سے اپنے خون كی شوگر چیك كرواتے رہنا چاہئےـ

حمل كی ذیابیطیس كا خطرہ كن عورتوں كیلئے زیادہ ہے؟

حمل كی ذیابیطیس كا خطرہ سب عورتوں كیلئے برابر نہیں ہوتاـ مندرجہ زیل صورتوں میں اسكا خطرہ بڑهـ جاتا ہے

 ـ اگر حاملہ كی عمر 30 سال یا اس سے زیادہ ہے

 ـ اگر حاملہ كا وزن زیادہ ہے

 ـ اگر حاملہ كے خون كے رشتوں میں ذیابیطیس كے مریض موجود ہیں

 ـ اگر حاملہ كو پہلے كسی حمل كے دوران بهی حل كی ذیابیطیس ہو چكی ہے

ـ كُچهـ مخصوص نسلوں سے تعلق ركهنے والی عوتوں میں اس مرض كا امكان زیادہ ہوتا ہے جس میں ایشیائی نسلیں بهی شامل ہیں

حمل كی ذیابیطیس كا علاج

حمل كی ذیابیطیس میں ماں اور بچہ ، دونوں كی بہتری كیلئے ضروری ہے كہ اسكے علاج میں كسی قسم كی كوئی كوتاہی نہ ہونے پائےـ اس علاج كا مُدعا یہ ہونا چاہئے كہ ماں كے خون مین شوگر كی مقدار تقریباً اُتنی ہی رہے، جتنی ذیابیطیس كے بغیر كسی عام حاملہ عورت كی ہوتی ہےـ

اس مقصد كیلئے خورك میں تبدیلیوں اور ورزش كا ایك خصوصی لائحہ عمل طے كرنا ضروری ہوتا ہےـ اگُ ضرورت پڑے تو انسولین كے ٹیكے لگانے میں بهی ذرا ہچكچانا نہیں چاہئےـ

كُچه عرصہ پہلے تك حمل كے دوران ذیابیطیس كے لئے انسولین كے علاوہ اور كوئی دوا تجویز نہیں كی جاتی تهی، لیكن اب كئی صورتوں میں كهانے كی دوائیں بهی استعمال كی جا سكتی ہیںـ

ذیابیطیس كے ساتهـ زچگی

كوئی عورت جسے پہلے ہی سے ذیابیطیس ہے، وہ اگر بچہ پیدا كرنا چاہے،تو اس میں كوئی برائی نہیں ہے لیكن اُسے  حمل ہونے سے كم از چهـ ماہ پہلے سے اپنے ڈاكٹر صاحب كے مشورے سے اس كے بارے میں منصوبہ بندی كرنا چاہئے ـ

 

Comments are closed.